وزیراعظم یوسف رضا گیلانی Ú©Û’ خلاف توہین عدالت کا مقدمہ ایک قانونی اور آئینی معاملہ تھا لیکن گیلانی صاØ+ب Ù†Û’ اپنے شوق شہادت Ú©Û’ ہاتھوں مجبور ہو کر اسے ایک سیاسی معاملہ بنانے Ú©ÛŒ کوشش کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان Ù†Û’ توہین عدالت Ú©Û’ اس مقدمے میں 21 سماعتوں Ú©Û’ بعد مجرم قرار دے دیا لیکن سزا اس انداز میں دی کہ ان کا شوق شہادت پورا نہ ہوا۔ 8مئی Ú©Ùˆ اسلامی جمہوریہ پاکستان Ú©Û’ سزایافتہ وزیراعظم برطانیہ Ú©Û’ سرکاری دورے پر روانہ ہوئے تو سپریم کورٹ Ú©Û’ سات ججوں Ù†Û’ توہین عدالت Ú©Û’ مقدمے میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ اس تفصیلی فیصلے میں ایک جج صاØ+ب کااضافی نوٹ بھی شامل ہے اور اس اضافی نوٹ Ù†Û’ لبنانی نژاد امریکی فلسفی اور شاعر جبران خلیل جبران Ú©Ùˆ پاکستان Ú©ÛŒ سیاسی Ùˆ آئینی تاریخ کا Ø+صہ بنا دیا۔ اضافی نوٹ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والے جج کا نام جسٹس آصف سعید کھوسہ ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں یوسف رضا گیلانی Ú©Û’ ساتھ پڑھتے رہے۔ انہوں Ù†Û’ جبران خلیل جبران Ú©ÛŒ ایک مشہور نظم ”قابل رØ+Ù… قوم“ کا ذکراپنے اضافی نوٹ میں کیا اور پھر جبران سے معذرت Ú©Û’ ساتھ اسی نظم Ú©Ùˆ اپنے اØ+ساسات Ú©Û’ رنگ میں ڈھال دیا۔ انہوں Ù†Û’ لکھا کہ قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جو ایک سزایافتہ مجرم Ú©Ùˆ ہیرو کا درجہ دیتی ہے، قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جو سیاسی مفادات Ú©Ùˆ آئینی اØ+کامات پر ترجیØ+ دیتی ہے، قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جس Ú©Û’ رہنما قانون Ú©ÛŒ نافرمانی کرکے شہادت Ú©Û’ متلاشی ہوں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جسٹس آف سعید کھوسہ Ù†Û’ یوسف رضا گیلانی Ú©Û’ شوق شہادت کا توڑ آئین Ùˆ قانون سے نہیں بلکہ جبران خلیل جبران Ú©Û’ فلسفے اور شاعری سے تلاش کرنے Ú©ÛŒ کوشش کی۔ آئینی ماہرین Ú©ÛŒ اکثریت کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ Ù†Û’ اس مقدمے Ú©Û’ مختصر فیصلے میں گیلانی صاØ+ب Ú©Ùˆ چند سیکنڈ Ú©ÛŒ سزادے کر مجرم تو بنا دیا لیکن ان Ú©ÛŒ نااہلی کا معاملہ پارلیمینٹ پر Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا۔ اخلاقی طور پر وزیراعظم Ú©Ùˆ استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا لیکن ان Ú©Û’ وکیل چودھری اعتزا ز اØ+سن Ù†Û’ اعلان کیا کہ وہ تفصیلی فیصلہ آنے Ú©Û’ بعد اپیل میں جائیں Ú¯Û’Û” شاید سپریم کورٹ Ú©Û’ جج صاØ+بان جانتے ہیں کہ اپیل کا مقصد Ù…Ø+ض وقت گزاری ہے Û” جب اپیل Ú©Ùˆ بھی مسترد کردیا جائے گا تو اس Ú©Û’ بعد بھی اسپیکر قومی اسمبلی آئین Ú©ÛŒ دفعہ 63 Ú©ÛŒ ذیلی شق 2میں سے یہ نکتہ تلاش کرلیں Ú¯ÛŒ کہ وزیراعظم Ú©Û’ خلاف الیکشن کمیشن Ú©Ùˆ نااہلی کا ریفرنس بھیجنا یا نہ بھیجنا ان کا اپنااختیار ہے اور انہوں Ù†Û’ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ریفرنس نہیں بھیجیں گی۔ اسپیکر Ú©Û’ اس ممکنہ رویئے Ú©Û’ بعد یوسف رضا گیلانی کوصرف ایک طریقے سے ہٹایا جاسکتا ہے او ر وہ اخلاقی دباؤہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نوٹ دراصل ایک درس ِ اخلاقیات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ برطانیہ Ú©Û’ دورے سے واپسی Ú©Û’ بعد وزیراعظم صاØ+ب اپنا عہدہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ Ú©Û’ بارے میں سوچیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیا وزیراعظم اپنے صدر Ú©Û’ خلاف سوئس Ø+کومت Ú©Ùˆ خط Ù„Ú©Ú¾Û’ گا؟ وزیراعظم Ú©Ùˆ سپریم کورٹ Ú©Û’ فیصلے کا اØ+ترام کرتے ہوئے سوئس Ø+کومت Ú©Ùˆ خط Ù„Ú©Ú¾ دینا چاہئے تھا اور توہین عدالت میں سزا Ú©Û’ بعد اخلاقی طور پر استعفیٰ بھی دے دینا چاہئے تھا لیکن ایک سوال جج صاØ+بان سے بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ Ù†Û’ ہمیں جبران خلیل جبران کا فلسفہ پڑھا دیا بہت اچھا کیا لیکن تفصیلی فیصلے میں یہ بھی سمجھا دیتے کہ آئین Ú©ÛŒ دفعہ 248 Ú©ÛŒ کیا Ø+یثیت ہے؟ 248Ú©Û’ تØ+ت صدر Ú©Ùˆ عدالتی کارروائی سے استثنیٰ Ø+اصل ہے یا نہیں؟ اگر جج صاØ+ب کاجواب نفی میں ہے تو تفصیلی فیصلے میں Ù„Ú©Ú¾ دیتے کہ صدر Ú©Ùˆ 248Ú©Û’ تØ+ت کوئی استثنیٰ Ø+اصل نہیں ہے۔ وزیراعظم Ú©Û’ وکلا صاØ+بان عدالت Ú©Û’ سامنے 248پر خاموش رہے لیکن عدالت Ú©Û’ باہر 248 Ú©ÛŒ دہائی دیتے رہے۔ عدالت اپنے تفصیلی فیصلے میں اس معاملے Ú©Ùˆ صاف کردیتی تو قانون Ú©ÛŒ بالادستی Ú©Û’ Ø+امیوں Ú©Ùˆ چوہدری اعتزاز اØ+سن Ú©Û’ ساتھ بØ+Ø« کرنے میں بڑی آسانی ہوتی۔ عدالت Ù†Û’ یہ معاملہ جبران خلیل جبران پر لا کر ختم کیا ہے۔ مجھ ناچیز Ú©ÛŒ رائے میں اس تفصیلی فیصلے Ú©ÛŒ اصل بات جبران کا فلسفہ ہے۔ ہم ایک دوسرے Ú©Ùˆ علامہ اقبالاور قائداعظم Ú©Û’ Ø+والے دیتے رہتے ہیں لیکن ان Ú©ÛŒ تعلیمات پر عمل نہیں کرتے شاید اس لئے جسٹس آصف سعید کھوسہ Ù†Û’ لبنان Ú©Û’ میرونائٹ کرسچئن فلسفی جبران کا Ø+والہ تلاش کیا۔
جبران 1883میں لبنان Ú©Û’ علاقے بشری میں پیدا ہوا۔ اس Ú©ÛŒ ماں کاملہ ایک پادری Ú©ÛŒ بیٹی تھی جس Ù†Û’ تین شادیاں کیں۔ خلیل اس کا تیسرا خاوند تھا۔ جبران آٹھ سال کا تھا جب اس Ú©Û’ باپ خلیل Ú©Ùˆ کرپشن Ú©Û’ الزام میں سزا ہوئی اور اس Ú©ÛŒ جائیداد ضبط ہوگئی۔ جبران Ú©ÛŒ ماں Ú©Ùˆ سخت پریشانیوں کا سامنا تھا۔ اس کا ایک بھائی امریکہ میں رہتا تھا لہٰذا وہ جبران اور اس Ú©ÛŒ بہنوں Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر امریکہ Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ جبران Ú©ÛŒ تعلیم Ùˆ تربیت بوسٹن میں شروع ہوئی۔ اسے شاعری اور مصوری سے عشق تھا۔ اس Ù†Û’ مصوری Ú©ÛŒ تعلیم پیرس سے Ø+اصل کی۔ اس Ú©ÛŒ مشہور کتاب ”پیغمبر“ 1923 میں شائع ہوئی اور ”گلستان پیغمبر“ 1933 میں اس Ú©ÛŒ موت Ú©Û’ دو سال بعد شائع ہوئی۔ اس Ú©ÛŒ نظم ”قابل رØ+Ù… قوم“ اس کتاب کا Ø+صہ ہے جو اس Ú©ÛŒ بہن ماریانہ اور دوست میری پاسکل Ù†Û’ شائع کرائی۔ جبران Ú©ÛŒ موت 1931 میں نیویارک میں ہوئی لیکن 1932 میں اس Ú©Û’ جسدخاکی Ú©Ùˆ لبنان لا کر دفن کیا گیا۔ اس Ú©ÛŒ دوست میری پاسکل Ù†Û’ جبران Ú©Û’ کئی خطوط Ú©Ùˆ طویل عرصہ تک خفیہ رکھا لیکن 1950 میں یہ خطوط یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا Ú©Û’ Ø+والے کردیئے۔ جبران کا فلسفہ اور شاعری دراصل عربی اور انگریزی کا Ø+سین امتزاج ہے۔ وہ عرب تھا لیکن اسے زیادہ پذیرائی امریکہ اور یورپ میں ملی۔ وہ جس ملک میں دفن ہے اس ملک Ú©Û’ Ø+الات آج بھی پاکستان سے مختلف نہیں۔ عرب 1923 میں بھی قابل رØ+Ù… تھے آج بھی قابل رØ+Ù… ہیں۔ پاکستانی 1947میں قابل رØ+Ù… تھے اور آج بھی قابل رØ+Ù… ہیں۔ شاید اس لئے کہ جبران Ú©Û’ الفاظ میں Ú©Ú†Ú¾ لوگ کانوں سے سنتے ہیں، Ú©Ú†Ú¾ پیٹ سے اور Ú©Ú†Ú¾ گریبان سے اور Ú©Ú†Ú¾ لوگ سنتے ہی نہیں۔ جبران Ù†Û’ یہ بھی کہا تھا کہ Ú©Ù„ ایک ایسا وقت آئے گا جب نئی نسل Ú©Û’ لوگ ہماری اولاد کہلانے سے گریز کریں Ú¯Û’Û” جبران Ù†Û’ یہ بھی لکھا تھا کہ تاریخ اپنے آپ Ú©Ùˆ انہی لوگوں Ú©Û’ سامنے دہراتی ہے جو تاریخ سے ناواقف ہوں لیکن کتنی قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جو تاریخ سے واقف ہو کر بھی تاریخ سے سبق نہ سیکھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا شکریہ کہ انہوں Ù†Û’ اپنے اضافی نوٹ میں ایک ایسے فلسفی کا ذکر کیا جس Ù†Û’ ایسے جھوٹوں کا ذکر بھی کیا جو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔
جبران کا فلسفہ صرف اس Ú©ÛŒ ایک نظم تک Ù…Ø+دود نہیں بلکہ کئی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے اور اگر ان Ú©ÛŒ نظم ”جرم اور سزا“ Ú©Ùˆ پڑھا جائے تو ہم کئی سبق Ø+اصل کرسکتے ہیں۔ قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے لیکن جموری اقدار Ú©ÛŒ Ø+وصلہ Ø´Ú©Ù†ÛŒ کرتی ہے شاید اس لئے کہ ماضی میں اس قوم Ú©Û’ ججوں Ù†Û’ ہمیشہ جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جس کا ایک چیف جسٹس Ù…Ø+مد منیر ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان کا وزیرقانون بن گیا۔ قابل رØ+Ù… ہے وہ قوم جس Ú©Û’ ججوں Ù†Û’ ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الØ+Ù‚ Ú©Û’ ساتھ مل کر ایک وزیراعظم Ú©Ùˆ پھانسی دے دی اور پھر انہی میں سے ایک جج نسیم Ø+سن شاہ Ù†Û’ کتاب Ù„Ú©Ú¾ کر اعتراف کیا کہ وزیراعظم Ú©Ùˆ پھانسی لگانے کافیصلہ غلط تھا۔ لیکن پھر وقت بدلا اور اس قابل رØ+Ù… قوم Ú©Ùˆ ایک چیف جسٹس افتخار چوہدری ملا جس Ù†Û’ ایک فوجی آمر جنرل مشرف Ú©Û’ سامنے انکار کیا۔ دو دفعہ سپریم کورٹ سے نکالا گیا۔ عوام Ù†Û’ اسے دونوں مرتبہ بØ+ال کرایا۔ آج اس چیف جسٹس Ú©Û’ ساتھ ایسے جج بھی ہیں جنہوں Ù†Û’ مشرف Ú©Û’ ساتھی جسٹس عبدالØ+مید ڈوگر سے Ø+لف Ù„Û’ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ کاش کہ یہ جج ڈوگر سے Ø+لف لینے سے پہلے بھی جبران Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾ لیتے۔ جبران Ù†Û’ کہا تھا کہ ان واعظوں Ú©Ùˆ خیرباد کہتا ہوں جو اپنے واعظ Ú©Û’ مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ لوگوں Ú©Ùˆ عمل Ú©ÛŒ تلقین کرتے ہیں لیکن خود وہ عمل نہیں کرتے۔ آیئے سب مل کر جبران Ú©Û’ فلسفے Ú©Ùˆ پڑھیں اور صرف یوسف رضا گیلانی پر طنز نہ کریں بلکہ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔